کینیڈا نے مسلم ممالک سےبچوں کو گود لینے پر شرعی قوانین کی آڑ میں کس طرح پابندی لگائی
وفاقی حکومت دی ففتھ ایسٹیٹ کی جانب سے تفتیش کے بعد پاکستان سے گود لینے کی متنازعہ پابندی پر نظر ثانی کرے گی
ایک پاکستانی یتیم خانے میں ننھے عمران نے اپنی چیزیں سمیٹیں اور ان بچوں کو الوداع کہا جو اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ عمران کو پیدائش کے بعد ہی وہاں چھوڑ دیا گیا تھا اور اب چار سال کی عمر میں باآخر اسے یقین تھا کہ اس کا بھی ایک خاندان ہو گا۔
"مجھے خدا حافظ کہو،" اس نے کہا۔ "میری ماں مجھے کینیڈا لے جانے کے لیے آ رہی ہے۔"
یہ دو سال قبل کی بات ہےمگرعمران آج تک کینیڈا نہیں پہنچ سکا - یہ سب ایک متنازعہ پالیسی کی بناء پر ہوا جس نے کینیڈا کے پر امید شہریوں کو ان بچوں سے دور رکھا جن کے لیے انہوں نے اپنے دلوں اور گھروں میں جگہ بنا کر رکھی تھی۔
لیکن دی ففتھ ایسٹیٹ کی سال بھر کی تفتیش کے بعد، اس میں پالیسی میں تبدیلی کا امکان ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ٢٠١٣ کے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی جب کینیڈا نے بغیر انتباہ کے پاکستان سے بچے گود لینے پر پابندی لگا دی تھی۔
مسلم ممالک سے بچے گود لینے والے کینیڈا کے شہریوں ک و قانون کے جال میں جکڑ دیا گیا تھا •
اوٹاوا کی فیملی کو پاکستان میں لٹکائے رکھا •
درجنوں ایسے خاندان ہیں جو پہلے ہی پاکستان جا کر ان بچوں سے ملاقات کر چکے تھے جنہیں انہوں نے گود لینے کے لئے چن لیا تھا مگر ایک وقت ایسا آیا جب ان کی خوشیاں ملیا میٹ ہوگئیں۔
سارہ ان پر امید والدین میں سے ایک تھی، جو عمران کو شمالی پاکستان کے ایک یتیم خانے سے گھر لانے کے لیے تیار تھی مگر دنیا کی دوسری طرف ٹورنٹو میں سارہ اب بھی ایک بِن بچے کی ماں ہے۔
دی ففتھ ایسٹیٹ نے عمران اور سارہ کی شناخت کو مخفی رکھنے پر اتفاق کیا کیوں کہ اسے ڈر تھا کہ اس کا عام ہونا ان کے ملنے کو ناممکن بنا دے گا۔
پاکستان کی نظروں میں تو سارہ اب عمران کی ماں ہے مگر وہ عمران کو اپنی تصویر تک بھیجنے سے گریز کرتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر عمران اس تک نہ آسکا تو وہ اس کی نظروں میں ایک اور مایوس کن شخصیت بن جائے گی۔
"اگر وہ مجھ تک کبھی نہ پہنچ سکا تو کیا ہوگا؟ میں اسے چھوڑنے والے دوسری ماں بن جاؤں گی۔"
سارہ اکیلی نہیں ہے جو ایسا سوچتی ہے
دی ففتھ ایسٹیٹ نے پتہ چلایا ہے کہ کینیڈا نے خاموشی کے ساتھ یہی پابندی تمام مسلم ممالک پر لگا دی ہےکیونکہ وفاقی حکومت کے مطابق، شرعی قانون کے تحت اسلام میں بچوں کو گود لینے کی اجازت نہیں ہے حالانکہ ان ہی ممالک کی عدالتوں کی نظر میں شریعہ کی یہ تشریح کوئی معنی نہیں رکھتی۔
قانونی طور پر جو دستاویزات حاصل کی گئی ہیں وہ ظاہر کرتی ہیں کہ کینیڈا کے حکام شرعی قانون کے احکامات پر تحقیق کرنے میں اتنی گہرائی تک گئے کہ مسلم ممالک سے بچوں کو گود لینے کے عمل پر روک تھام تک پہنچ گئے۔
موجودہ حکومت کو یہ پالیسی اپنی پیشرو حکومت سے وراثت میں ملی ہے، جن خاندانوں کی زندگیاں کنزر ویٹو حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے موقوف کر دی گئی تھیں وہ لبرل حکومت سے اس بات کی وضاحت طلب کر رہے ہیں کہ غیر واضح مذہبی قوانین کی بنیاد پر یہ پابندی کیوں برقرار رکھی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ شریعہ میں دخل دینا کینیڈا کی حکومت کا کام نہیں تھا۔
نئی زندگی کا موقع
یہ ٢٠١٢کی بات ہے جب نومولود عمران کو شمالی پاکستان کے سینا ہیلتھ اینڈ ویلفیئر سروسز سینٹر میں چھوڑا گیا تھا۔ غیر منافع بخش تنظیم جو گلگت بلتسان کی دور دراز وادیوں میں بے آسرا بچوں کو صحت اور تعلیم کے حوالے سے معاونت اور علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ ایسا علاقہ ہےجہاں غیر شادی شدہ عورت کا حاملہ ہونا بے حد معیوب تصور کیا جاتا ہے، اور ماں اور بچے کے لیے شدید خطرے باعث بن سکتا ہے۔ وہاں ناجائز سمجھنے جانے والے بچوں کو زندہ دفنانا یا کچرے میں پھینک دینا حیرت کی بات نہیں ہے۔
چند سال قبل، سارہ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بچہ گود لینا چاہتی ہے اور ضروری منظوریاں لینے کے لیے کام شروع کر دیا تھا۔
کینیڈا میں، صوبے اور خطے ایک مفصل درخواست اور انٹرویو کے بعد درخواست دہندہ کے گھر اور پس منظر کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ درخواست منظور کی جانی چاہیئے یا نہیں۔ جب اونٹاریو کی حکومت نے سارہ کو خط بھیجا جس میں منظوری دی گئی تھی کہ وہ پاکستان سے بچہ گود لینے کا عمل شروع کر سکتی ہےتو اسے اپنا مستقبل روشن لگ رہا تھ صرف یہ باقی رہ گیا تھا کہ ایسے بچے سے پاکستان جاکر ملا جائے جسے گھر کی ضرورت ہو۔
پاکستان سے بچہ گود لینا اتنا آسان نہیں ہے۔ کینیڈا کی طرح پاکستان کے قوانین بھی برطانوی نظام پر مبنی ہیں مگر وہ اسلامی روایت سے بھی اخذ کرتے ہیں، جس کا عمومی حکم یہ ہے کہ بچے کے حیاتیاتی تعلق کو ہر گز جدا نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان میں ضرورت مند بچوں کے لیے ایک اختیار سرپرستی کا ہے، جس کا موازنہ پرورش سے کیا جا سکتا ہے۔ سرپرستی اس کی ایک قانونی شکل ہے جسے کئی مسلم ممالک میں کفالت کہا جاتا ہے: ایک بچے کو وہ نگہداشت ملتی ہے جو خاندان کا حصہ ہونے کی صورت میں ملتی ہے لیکن سرپرست حقیقی والدین کا بدل نہیں ہوتے۔
پاکستان میں گود لینے کے حوالے سے کوئی قوانین نہیں ہیں مگر ہزاروں یتیم اور لاوارث بچوں کو نئی زندگی کا موقع فراہم کرنے کے لیے، عدالت سرپرست کو گود لینے کے لیے بچے کو بیرون ملک لے جانے کی اجازت دے سکتی ہےجیسا کہ عمران کے لیے کیا گیا۔
بین الاقوامی ایڈاپشن کینیڈا میں ڈرامائی انداز سے مسترد کر دی گئی ہے •
ہر سال، پاکستانی عدالتیں درجنوں بچوں کو گود لینے کے لیے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں لے جانے کی اجازت دیتی ہیں۔کینیڈا میں ٢٠١٣تک بچوں کو پاکستان سے لانے پر کوئی پابندی نہیں تھی مگر پھر وفاقی حکومت نے ٥٠سے زائد خاندانوں کی زندگیوں کو موقوف کرتے ہوئے یکایک دروازہ بند کر دیا۔
اس وقت کی وفاقی حکومت کے مطابق، پاکستان سے بچے گود لینے کے عمل کو جاری رکھ کر کینیڈا نے بین الاقوامی ایڈاپشن پر ہیگ کنوینشن کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس نے دلیل دی کہ کنوینش کے تحت وہ صرف اس صورت میں گود لینے کے معاملے پر عمل درآمد کر سکتا ہے جہاں والدین اور بچے کا تعلق بچے کے آبائی ملک میں بنایا گیا ہو۔ حکومت کی دلیل کے مطابق شرعی قوانین کے تحت ایڈاپشن سرے سے ممکن ہی نہیں تھا۔
یہ خیال امریکہ اور برطانیہ نے پیش نہیں کیا، حالانکہ وہ بھی ہیگ کنوینشن کے رکن ہیں۔ دونوں ممالک اپنے شہریوں کو اجازت دیتے ہیں کہ پاکستانی عدالت کے حکم کے ذریعے جنہیں گود لینے کی منظوری دی گئی ہو وہ اپنے بچوں کو گھر لے آئیں۔ واپس گھر آ کر، گود لینے کا عمل مقامی قوانین کے تحت مکمل کیا جاتا ہے۔
کینیڈا کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کیوں؟ جوابات فوری طور پر واضح نہیں ہیں۔
"شریعہ کے تحت شدید ممنوع"
سال ٢٠١٣کی ای میلز ظاہر کرتی ہیں کہ وفاقی اہلکار اس پابندی کے سلسلے میں صوبوں اور علاقوں کا تعاون حاصل کرنے میں اتنےمصروف تھے کہ بیوروکریٹس واضح طور پر اسلامی قانون کی پیچیدگیوں کی بھول بھلیوں میں پھنس کر رہ گئے۔
سال ٢٠١٣میں وفاقی اہلکاروں کی جانب سے صوبوں اور علاقوں بھیجی گئی ایک دستاویز میں لکھا ہے کہ، "یہ تصور کرنا معقول ہے کہ بچے کے والدین تبدیل کرنا شرعی قانون کے ت حت شدید ممنوع ہے۔
دستاویز میں مزید لکھا ہے، "اسلامی نقطہ نظر سے، بچہ گود لینے والے والدین کا حقیقی بچہ نہیں بنتا۔ کفالت نہ تو جنم دینے والے والدین اور بچے کے تعلق کو ختم کرتی ہے نہ ہی سرپرست کو والدین کے مکمل حقوق عطا کرتی ہے"۔
سارہ کے مطابق کینیڈا کے لیے شرعی قانون کی تفسیر میں مداخلت حیران کن ہے۔
سارہ نے کہا،:"مجھےپاکستانی عدالت کے دو ججوں نے کہا کہ، 'یہ بچہ گود لیں اور اسے لے کر کینیڈا چلی جائی...تو کیا پاکستان میں موجود جج اپنے عقیدے اور قانین کو نہیں سمجھتے؟کیا کینیڈا بہتر جانتا ہے؟"۔
سال ٢٠١٣وفاقی اہلکاروں کی ای میلز سے پتہ چلتا ہے کہ ان پابندیوں کی تحریک اسلام آباد میں موجود کینیڈا کے ہائی کمیشن کی جانب سے ہوئی۔ ان کے مطابق پاکستان سے بچے گود لینے کے واقعات کی تعداد میں واضح طور پر اضافہ ہو رہا تھا۔ دباؤ کے جواب میں، وفاقی اہلکاروں نے جلدی سے پالیسی تشکیل دے دی کیوں کہ وہ ایسا کرنے سے قبل کینیڈا کے باشندوں اور ایڈاپشن ایجنسیوں کو اس کی خبر نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔
ابتداء میں کچھ صوبے ہائی کمیشن کی جانب سے آنے والے دباؤ کی مزاحمت کرتے نظر آ رہے تھے، ٢ جولائی کو والدین گورنمنٹ کی ویب سائٹ پر وہ نوٹس دیکھ کر بیدار ہوئے کہ اب گود لینا ممکن نہیں رہا۔
ان خاندانوں کے لیے استثناء رکھا گیا تھا جو اس عمل میں بہت آگے تک جا چکے تھے۔ اس کے باوجود سارہ اور کئی دیگر افراد نے جنہوں نے پابندی سے بہت قبل گود لینے کا عمل شروع کیا تھا، پالیسی کے مؤثر ہونے پر خود کو رکاوٹوں میں گھرا پایا۔
ساسکاٹون میں مقیم امیگریشن وکیل ہائیدہ امیرزادی، جس نے کینیڈا کے ان شہریوں کے متعدد مقدمات لڑے جنہیں ان کے زیر سرپرستی بچوں سے جدا کر دیا گیا تھا، حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ کہیں یہ پابندی وفاقی حکومت کی طرف سے مسلم ممالک کے امگرنٹس کو محدود کرنے کی کوشش کا حصہ تو نہیں۔
ایک بلاگر کہتا ہے کہ پاکستان سے بچے گود لینے پر پابندی حیران کن ہے •
"امیرزادی نے کہا :"میں کہوں گی کہ یہ سیاست کے زیر اثر ہے
یہ کہنا مشکل ہے کہ واقعی ایسا ہے یا نہیں۔ ضروری نہیں کہ دی ففتھ ایسٹیٹ کے ذریعے گود لینے پر پابندی کے حوالے سے حاصل کردہ دستاویز پوری کہانی بتاتی ہو۔ متعدد صفحات سنسر شدہ ہیں، لیکن ان میں سے ایک، جس پر ٢٥جون ٢٠١٣کی تاریخ ہے، اس پر "خفیہ" کا نشان لگا ہوا ہے اور اس کا عنوان ہے "پاکستان سے لاحق دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کینیڈا کا پروگرام"۔
میمو، جس کا مخاطب اس وقت کا وزیر خارجہ تھا، قانونی پابندی کے لاگو ہونے سے چند روز قبل بھیجا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان سے بچے گود لینے کے عمل کا قومی سلامتی سے کیا تعلق ہے۔
اوسگُڈ ہال میں قانون کے پروفیسر فیصل بھاب ھا قانون اور مذہب کے دوراہے کی تحقیق کرتے ہیں۔ ان کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے خود کو مذہبی عقائد سے متعلق کرنے کا خیال نیا نہیں ہے لیکن حوصلہ شکن ہے۔ وہ ہارپر گورنمنٹ کو خاص طور پر زیر بحث لاتے ہیں جو ان کے مطابق قومی سلامتی کے نام پر قدامت پسند نظریات کے ذریعہ عوام کو رسمی طبقات میں بانٹتی تھی
انہوں نے کہا :"یہ مجرم کی چھاپ لگانے کی ایک اور صورت ہے…میں سابقہ حکومت پر مذموم نیت کا الزام نہیں لگاؤں گا"۔
کینیڈا کے حکام نے خاموشی سے پابندی کو وسعت دی
پابندی کے بعد جو دل شکستہ والدین میڈیا کے سامنے آئے وہ پریشان تھے کہ وہ کبھی اپنی گود لیے ہوئے بچوں سے مل نہیں سکیں گے۔ اس وقت کچھ والدین اور وکلاء کو یہ امید تھی کہ شاید بالآخر پابندی ختم ہو جائےلیکن اب تک یہ ظاہر ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے صرف فیصلے کا دفاع ہی کیا ہے ۔ سال ٢٠١٧ میں، امگریشن منسٹر احمد حسین نے بعینہ یہی کیا۔
حسین کے دفتر سے پابندی کے خلاف لڑنے والے والدین کو موصول ہونے والا خط بیان کرتا ہے"پاکستان کا قانونی نظام گود لینے کے تصور کی نہ اجازت دیتا ہے نہ ہی اسے تسلیم کرتا ہے"۔
مزید کہتا ہے کہ گارڈین شپ کے آرڈرز بچوں کو سرپرست کے رہائشی ملک میں گود لینے کی اجازت نہیں دیتے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اس کا کوئی اقرار نہیں کیا گیا کہ پاکستانی عدالتیں معمول کے مطابق بیرون ملک رہائش پذیر والدین کو واضح اجازت دیتی ہیں کہ وہ اپنے آبائی ملکوں میں گود لینے کے عمل کو مکمل کریں۔
دی ففتھ ایسٹیٹ نے اوٹاوا میں موجود پاکستان کے ہائی کمیشن سے رابطہ کیا جس نے بتایا کہ کینیڈا کی حکومت کا یہ دعویٰ کہ پاکستان گود لینے کی اجازت نہیں دیا صاف جھوٹ ہے۔
کمیشن کے ناظم اطلاع ندیم کیانی نے ایک انٹرویو میں کہا :"ہم سمجھتے ہیں کہ کینیڈا کی حکومت کی جانب سے پابندی غیر منصفانہ ہے...کینیڈا کے شہریوں کو پاکستان سے بچے گود لینے کی اجازت ہونی چاہیے"۔
اگرچہ کاغذات میں یہ پابندی صرف پاکستان پر لاگو ہوتی ہے مگر بظاہر کینیڈا کے حکام نے تقریبا ہر مسلم ملک سے بچے گود لینے کے عمل پر اس کا اطلاق کیا ہے۔
سال ٢٠١٥میں ہم نے نیوز نے اس فیصلے کے متعلق سینکڑوں صفحات کی دستاویزات حاصل کیں جن کے مطابق کینیڈا نے اسے مزید وسیع کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ۔
۔سال ٢٠١٧میں امگریشن، ریفیوجیز اور سٹیزن شپ کینیڈا کے ایک نمائندے نے تصدیق کی کہ اس فیصلے کے اطلاق میں پاکستان اکیلا نہیں تھا۔
نینسی کیرون نے لکھا:"وفاقی قانون کے تحت: "کسی بھی بیرونی ریاست کی جانب سے کفالت/سرپرستی کے حکم پر یہی قانون لاگو ہو گا"۔
جیسا کہ ظاہر ہوا ہے، کینیڈا کہ حکام مختلف مسلم ممالک سے بچے گود لینے پر کم از کم ایک عشرے سے پابندی لگا رہے ہیں۔ وہ شرعی قانون کا حوالہ دے کر کہہ رہے ہیں کہ وہ گود لینے کی اجازت نہیں دیتے۔
عدالت کی دستاویزات دکھاتی ہیں کہ کینیڈا کے ویزا ایجنٹس نے ٢٠٠٨میں ایران، سوڈان اور عراق کے متعلق مقدمات میں ایسا کیا۔ یہ سلسلہ ٢٠١٧تک جاری رہا جب چار یتیم بچوں کو انہی وجوہات کی بنا پر کینیڈا آنے سے روک دیا گیا تھا۔
امیرزادی کہتی ہیں کہ انہوں ایسے مقدمات دیکھے ہیں جن میں قطر، افغانستان اور الجیریا سے بچے گود لینے پر لوگوں کو انہی وجوہات کی بنا پر انکار کر دیا گیا۔
"مذہب کے متعلق فیصلہ کرنا ریاست کا کام نہیں ہے"
بھابھا کے نزدیک کینیڈا کی یہ دلیل کہ شرعی قانون میں گود لینے کی ممانعت ہے، کھلم کھلا امتیازی سلوک لگتا ہے۔
انہوں نے کہا:"وہ صرف ان بچوں کو گود لینے پر پابندی عائد کر رہے ہیں جن کی ایک خاص نسلی، قومی یا مذہبی شناخت ہے…یہ ان بچوں کے گود لیے جانے کے فوائد کو ختم کرنے کے مترادف ہے"۔
اس کے علاوہ، انہوں نے کہا، "یہ کینیڈا کی حکومت کا کام نہیں ہے کہ وہ شرعی قوانین کے مطابق فیصلہ سازی کرے۔ یہ ریاست کا کام نہیں ہے کہ وہ فیصلے کرتی پھرے کہ مذہب کی درست تشریح کیا ہے"۔
جبکہ پابندی سابقہ حکومت کی جانب سے شروع کی گئی تھی، بھابھا کہتے ہیں کہ یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وضاحت کرے کہ اس کا نفاذ کیوں جاری رکھا گیا۔
دی ففتھ ایسٹیٹ نے حسین کے ساتھ انٹرویو کے لیے کئی بار درخواست کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے اپنے نمائندے کے ذریعے بیان بھیج دیا۔
پریس سیکریٹری میتھیو جینسٹ نے ٥اکتوبر کو ایک ای میل میں کہا:"ہم نے ڈپارٹمنٹ کو پالیسی کا جائزہ لینے اور پاکستان کے علاوہ صوبائی اور علاقائی حکومتوں سے مشاورت کا عمل شروع کرنے کی ہدایت کی ہے تا کہ پاکستان سے بچے گود لینے کے عمل کو قانونی شکل دینے کا طریقہ کار وضع کیا جا سکے
دو ممالک کے قوانین کو ہم آہنگ کرنا عموماً ایک چیلنج ہوتا ہے۔ بجائے اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے، ہارپر گورنمنٹ نے پاکستان سے ایڈاپشن کے تمام عمل پر پابندی لگا دی"۔
جینسٹ نے یہ نہیں کہا کہ اس جائزے میں کتنا وقت لگے گا اور یہ کہ گود لینے کے عمل میں شامل کینیڈا کے شہریوں کو اس دوران پابندی میں کچھ آسانی ملے گی یا نہیں اور کیا دیگر مسلم ممالک کے متعلق بھی کوئی فیصلہ متوقع ہے۔
ہمارے علم میں آنے تک موجودہ حکومت نے اس فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی تھی"۔"
وقت ختم ہو رہا ہے
اِدھر سارہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہاے اور اُدھر یتیم خانے میں دو سال سےعمران اپنا سامان باندھےانتظار کر رہا ہے۔
یتیم خانے کے ایک اہل کار نے اس سال کے اوائل میں ایک خط میں سارہ کو بتایا کہ عمران اکثر اپنے خاندان کے متعلق حیرت سے پوچھتا ہے کہ وہ اسے گھر لے جانے کے لیے کیوں نہیں آئے:"ہم بہت پریشان ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ اسے آپ کے ساتھ کینیڈا لے جانے کے امکانات کتنے قوی ہیں۔ اگر مستقبل قریب میں ایسا ناممکن لگتا ہے تو ہم کہنا چاہیں گے کہ ہمیں اس کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے"۔
سارہ کے لیے کوئی فیصلہ کرنا نا ممکن ہے۔ ایک طرف تو وہ عمران کو کھونا ن ہیں چاہتی اور دوسری طرف وہ نہیں جانتی کہ آیا وہ اسے اپنے گھر لا بھی سکے گی یا نہیں۔
"اور یہ میری اپنی حکومت ہے جس نے ہمیں اکٹھا ہونے سے روکا ہے۔"
With files from Habiba Nosheen and Virginia Smart. Special thanks to Dr. Rafi Mustafa.